حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انجمنِ فقہ تربیتی کا 14واں علمی و تحقیقی مجلہ، تعلیم و تربیت مجتمع آموزش عالی فقہ جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے تحت چھپ کر منظر عام پر آ گیا ہے۔
فقہ اسلامی میں مکلّف کے تمام اختیاری اعمال کی طرح، تعلیمی و تربیتی طرزِ عمل کے لئے بھی حکم موجود ہے۔ فقہ تربیتی تعلیم و تربیت سے منسلک افراد یعنی اساتذہ اور مربیوں کے اختیاری افعال کے لئے اجتہادی اور استنباطی طریقے سے حکم معین کرتا ہے۔
دینی مراکز میں تعلیم و تربیت کا شعبہ باقی تمام تعلیمی شعبوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ حوزہ علمیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ سماج اور معاشرے کی اصلاح، تعلیم و تربیت، تبلیغ دین اور اسلامی معارف کی نشر و اشاعت کا علمبردار ہے، اس لئے حوزہ علمیہ لوگوں کی شرعی ذمہ داریوں کی تشخیص اور تعیین کو اپنا وظیفہ سمجھتا ہے، اس کا لازمہ یہ ہے کہ علمی میدان میں یہ شعبہ زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔
مجلۂ تعلیم و تربیت انجمنِ فقہ تربیتی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے؛ اب تک اس علمی تحقیقی مجلے کے تیرہ شمارے منظر عام پر آ گئے ہیں۔
اس علمی تحقیقی مجلہ کے چیف ایڈیٹر، کالم نگار، محقق اور جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے استاد ڈاکٹر محمد لطیف مطہری ہیں، جن کی کوششوں سے یہ علمی تحقیقی مجلہ منظر عام پر آرہا ہے۔
اس جدید شمارہ کے مقدمے میں رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کا حوزہ علمیہ قم کے یومِ تاسیس کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار کے نام پیغام ذکر کیا گیا ہے۔
اس تاریخی اور نہایت ہی اہم پیغام میں آپ فرماتے ہیں : حوزہ علمیہ اپنے ابتدائی برسوں میں، خدا پر ان کے (آیت اللہ حائری کے) توکل اور مخلصانہ پائیداری کے نتیجے میں، رضا خانی شمشیر سے جو دین کی نشانیوں اور ستونوں کو مٹانے میں چھوٹے بڑے کسی پر بھی رحم نہیں کرتی تھی، محفوظ نکل گیا۔ خبیث ستمگر مٹ گیا اور وہ حوزہ علمیہ جو برسوں شدید ترین دباؤ میں رہا، باقی رہا اور اس نے ترقی کی اور اس سے حضرت روح اللہ جیسا خورشید طلوع ہوا۔ وہ حوزہ علمیہ کہ کسی زمانے میں اس کے طلبا اپنی جان بچانے کے لئے، صبح سے ہی، مختلف طریقوں سے شہر سے باہر پناہ لیا کرتے تھے، وہاں درس و مباحثہ کیا کرتے تھے اور رات کی تاریکی میں، مدرسوں کے حجروں میں واپس آیا کرتے تھے، اس کے بعد چار عشروں کے دوران ایسے مرکز میں تبدیل ہو گیا کہ جو، پورے ملک میں نا امیدی میں مبتلا اور افسردہ دلوں میں رضا خان کی خبیث نسل کے خلاف مجاہدت کے شعلے بھڑکا رہا تھا اور گوشہ نشین نوجوانوں کو میدان میں لا رہا تھا۔ اور یہی حوزہ علمیہ تھا کہ جو اپنے بانی کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد، مرجع عظیم الشان، آیت اللہ بروجردی کے قدموں کی برکت سے پوری دنیا میں تشیع کی تبلیغی، تحقیقاتی اور علمی چوٹی ميں تبدیل ہو گیا اور یہی حوزہ علمیہ تھا کہ جس نے چھے عشرے سے کم مدت میں اپنی روحانی طاقت اور عوامی پہلو کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ عوام کے ہاتھوں خائن، بدعنوان اور فاسق بادشاہت کو اکھاڑ پھینکا اور صدیوں کے بعد ایک بڑے متمدن اور ہر طرح کی صلاحیتوں کے مالک عظیم ملک میں اسلام کو اس کی سیاسی حکمرانی کی جگہ پر پہنچا دیا۔
اسی با برکت حوزہ علمیہ سے اٹھنے والی ہستی تھی کہ جس نے ایران کو عالم اسلام میں اسلام پسندی کا مثالی نمونہ، بلکہ پوری دنیا میں دینداری کا پیش قدم ملک بنا دیا۔ اس کے پیغمبرانہ خطاب سے شمشیر پر خون کو فتح حاصل ہوئی۔ اس کی تدبیر سے اسلامی جمہوریہ وجود میں آئی۔ اس کی شجاعت اور توکل سے ملت ایران خطرات کے مقابلے میں سینہ سپر اور اس گروہ کثیر پر غالب آئی اور آج اسی ہستی کے دیے ہوئے درس اور ورثے کے نتیجے میں ملک زندگی کے سبھی میدانوں میں رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھ رہا ہے۔ اس بابرکت و باعظمت حوزہ علمیہ اور پر ثمر شجرہ طیبہ کے بانی، بلند مرتبہ، دانا اور مبارک انسان، عالم دین اور اس سکون سے آراستہ ہستی جو یقین سے حاصل ہوتا ہے، آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبد الکریم حائری پر رحمت و رضوان الہی قائم و دائم رہے۔
مقالات کی تفصیلات:
پہلے مقالے کا عنوان اسلام میں جوان اور جوانی کی اہم ترین خصوصیات ہے ۔اس مقالے میں جوان اور جوانی کو اللہ تعالی کا ایک انمول نعمت قرار دیا گیا ہے، اس تحقیق میں تحلیلی اور توصیفی طریقہ سے دین اسلام میں جوان اورجوانی کی بارہ اہم خصوصیات بیان کی گئی ہے۔قرآن کریم، پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) نے جوانی کو خدا کی سب سے قیمتی نعمتوں میں سے ایک اور انسانی زندگی کی سعادت کے عظیم اثاثوں میں سے ایک اثاثہ قرار دیا ہے۔ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ اسلامی روایات میں جوانی کی اہمیت بہت زیادہ بیان ہوئی ہے تاکہ انسان اس قیمتی اورانمول خدادادی نعمت کو بہتر طریقے سے درک کرتے ہوئے اس اہم دور سے بہترین استفادہ حاصل کرسکیں۔
دوسرے مقالے کا موضوع اسلامی انقلابِ ایران، انقلاب ِروس اور فرانس كا تقابلی جائزہ ہے۔ اس تحقیق میں ابتدائی طور پر انقلاب کی تعریف کی گئی ہے اور اسکے بعد کسی بھی انقلاب کی پیمائش کے لئے چند اہم معیارات بیان ہوئے ہیں، اور ساتھ ہی ان معیارات کی روشنی میں ان تینوں انقلاب(یعنی فرانس، روس اور اسلامی انقلابِ ایران) پر تجزیہ اور تحلیل کیا گیاہے اور اس بنیادی سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ ان تینوں انقلاب میں سے وہ کون سا انقلاب ہے جس میں عوامی شرکت شدید سیاسی اور عسکری دباؤ کے باوجود اپنے عروج پر تھی ۔ اس سوال کا جواب دینا اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں کسی بھی انقلاب پر تجزیہ و تحلیل کرنے میں مدد ملے گی، اور اس سوال کے جواب کی روشنی میں کسی بھی انقلاب کو پَرَکھنے اور تولنے کا میزان ہمارے ہاتھ آجائے گا، نتیجتاًہم باآسانی سمجھ سکیں گے کہ موردِ بحث تین انقلاب(روس، فرانس اور اسلامی انقلاب) میں وہ کون سا انقلاب ہے جس کے لئے راستہ ہموار تھا، انقلاب کے مراحل بھی دشوار نہ تھے اور جسکا کامیابی سے ہمکنار ہونا نسبتاً آسان تھا اور اس کے مقابلے میں وہ کون سا انقلاب ہے جس کےلئے شرائط بہت سخت اور دشوار تھیں اور کٹِھن حالات کو طے کرتے ہوئے اپنی کامیابی کی نوید سنائی اور آج تک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ اس تحقیق کے نتائج یہ ہیں کہ ان تینوں انقلاب میں سے انقلاب اسلامی ایران وہ واحد انقلاب ہے جسکا سامنا نسبتاً طاقتور سلسلے سے تھا، حالات بہت کٹِھن تھےاورسیاسی اور عسکری طاقت اپنے عروج پر تھی اسکے باوجود عوامی شرکت کے لحاظ سے یہ انقلاب دیگر تمام انقلاب سے ممتاز دیکھائی دیتا ہے۔
تیسرے مقالے کا موضوع قرآن و سنت کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی ضرورتیں ہے۔ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہےجوجسےخداوند متعال نے اپنے رسول کےقلب پرنازل کیا تاکہ پیغمبر اکرم ص نیک عمل کرنےوالوں کوجنت کی بشارت دیں اوربرے کام کرنے والوں کوعذاب الہی سےڈرا سکیں ۔ زمین،آسمان اور ان میں موجود تمام چیزوں کوانسان کےلئے پیدا کیاہے۔یہ سب اس لئے ہےکہ انسان ان نعمتوں کا فائدہ اٹھا کر اپنی دنیا اور آخرت سنواردیں۔انسان ایک جسمانی مخلوق ہونےکے ناطےجسمانی ضرورتوں کا حامل ہے وہ زمین پرایک خاص محدودیت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اس لئے انسان سب سے پہلےمادی ضرورتوں سے روبروہوتا ہے،مادی ضرورتیں اگرپوری نہ ہوجائیں تو انسانی وجودخطرے میں پڑسکتا ہے جیسے مناسب غذا ،مناسب کپڑا اورمناسب مکان وغیرہ ۔اسلام انسان کی مادی زندگی کے لئے کسب معاش اورکسب و کار کا اہتمام کرتا ہے اور لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے جو حیات انسان کو جاری رکھنے کے لئےضروری ہیں۔اس مقالہ میں قرآن و سنت کی روشنی میں انسان کی انفرادی اوراجتماعی ضرورتوں کو اجمالی طور پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
چوتھے مقالے کا عنوان قرآن کریم میں انبیاء الہی کا علوم ہے۔ اس مقالہ میں قرآن کریم میں مذکور انبیاء کرام کو عطا کردہ مختلف اقسام کے علوم کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔ قرآن انبیاء کو صرف پیغام رساں نہیں بلکہ علم و حکمت، فہم و فراست، اور الہامی شعور کے حامل انسانوں کے طور پر پیش کرتا ہے، جو انسانی تمدن، اخلاقیات، اور سائنسی و فکری ترقی میں بھی رہنمائی کرتے ہیں۔تحقیق کا مقصد انبیاء کو دیے گئے علوم کی نوعیت، دائرہ کار اور اثرات کو واضح کرنا ہے، اور یہ دکھانا ہے کہ یہ علوم محض دینی ہدایت تک محدود نہیں، بلکہ انسانی عقل، سائنسی شعور، سماجی نظام اور اخلاقی تربیت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں تفسیری، موضوعاتی اور تجزیاتی منہج اختیار کیا گیا ہے، اور قرآنی آیات، مستند تفاسیر اور احادیث سے مدد لی گئی ہے۔قرآن میں حضرت آدمؑ کو "اسماء کلہا" سکھائے جانے کا واقعہ انسان کی علمی برتری کی علامت ہے، جبکہ حضرت نوحؑ کو کشتی سازی، حضرت ابراہیمؑ کو کائناتی مشاہدے، حضرت یوسفؑ کو خوابوں کی تعبیر، حضرت سلیمانؑ کو منطق الطیر، اور حضرت عیسیٰؑ کو طب و معجزاتی علوم عطا کیے گئے۔ ان تمام علوم کا منبع وحی الٰہی ہے، اور یہ انسان کی فطری و تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہیں۔حضرت محمد ﷺ کو جامع ترین علم عطا ہوا، اور آپ کو قرآن جیسی کتاب دی گئی جو ہر شعبۂ حیات کے لیے مکمل ہدایت ہے۔ آپ کی سیرت تمام انسانی علوم کا منبع ہے، خواہ وہ اخلاقیات ہوں یا قیادت، قانون ہو یا تعلیم۔
پانچویں مقالے کا عنوان مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف جہاد نہج البلاغہ کی روشنی میں ہے۔ جب سے دنیا خلق ہوئی ہے حق و باطل کی جنگ چل رہی ہے اور اس جنگ میں کچھ لوگ مظلوم واقع ہوتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ جس پر ظلم ہورہا ہے کیا ہم تماشائی بن کر اس پر ہونے والے ظلم کو دیکھتے رہیں یا یہ کہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینی ہوگی۔ اس موضوع کا انتخاب اس لیے کیا گیا چونکہ دور حاضر میں اس کی اشدّ ضرورت کو محسوس کیا جارہا ہے ، آج جدھر بھی نگاہ دوڑائیں ہر طرف ظلم اور ظالم اپنی جڑوں کو پھلائے نظر آتا ہے ۔انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں کہ جہاں ظلم اپنا رسوخ پیدا نہ کر چکا ہو ۔ انسان گھر ميں ہے تو ظلم ، باہر ہے تو ظلم، جلوت میں ہو یا خلوت میں ہر جگہ ظالم بنا ہوا نظر آرہا ہے گویا کہ ظلم کے شکنجے میں اس طرح قید ہو چکا ہے کہ جس سے چھٹکارے کا راستہ نظر نہیں آتا ۔ اب ایسے حالات میں صرف محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کردار و گفتار ہی ہے کہ جو مشعل راہ بن کر انسان کی ہدایت کر سکتا ہے اور اسے ظلم و ستم سے نجات دلا سکتا ہے۔ لہذا اس تحقیق میں امام علی علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف جہاد کے بارے میں وضاحت پیش کی جائے گی۔
چھٹے مقالے کا عنوان قرآن کی رو سے، احسان اور ( شاگرد – مدار )تعلیمی ماڈل ہے۔ انسان کی سیکھنے کی صلاحیت مختلف عوامل سے متاثر ہوتی ہے۔ قرآن کریم تجرباتی اور معروف عوامل سے بڑھ کر ان امور کی بھی نشان دہی کرتا ہے جو سیکھنے اور تعلیم، خاص طور پر روحانی مسائل کے میدان میں، اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قرآن کریم سورۂ یوسف کی آیت ۲۲ میں واضح طور پر فرماتا ہے: "چونکہ یوسفؑ محسنین میں سے تھے؛ لہذا ہم نے انہیں علم و حکمت عطا کی۔" یہ تحقیق توصیفی، تجزیاتی اور استنطاقی (موضوعی تفسیر) طریقہ کار کے ذریعے احسان کا تعلیم و تربیت میں جائزہ لیتی ہے۔ تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان خالصتاً رضائے الٰہی کے لیے ، پہلے خود نیک اور صالح انسان بنتا ہے پھر دوسرے کے ساتھ بھی نیکی اور بھلائی کرتا ہے، تو ایسے متقی انسان کا نفس الٰہی عنایات اور الہامات کے حصول کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ الٰہی عنایت عمومی ہے اور ہر محسن بندہ کے لیے میسر ہو سکتی ہے۔یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس نوعیت کا علم نہ صرف دنیاوی معاملات میں بلکہ روحانی معاملات میں بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج سیکھنے والے کی مرکزیت والے تعلیمی ماڈل میں، بالخصوص علومِ تربیتی، اخلاق اور روحانیت کے میدان میں مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ